اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غاصب صہیونی ریاست کے سابق وزیر جنگ آویگدور لیبرمین (Avigdor Lieberman) نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہیں اور امریکہ اس وقت دوطرفہ تعلقات کی تاریخ کے بدترین موڑ پر ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاروں کی انتہائی شدت پسند جماعت "یسرائیل بیتننا" (yisrael beiteinu = اسرائیل ہمارا گھر) کے سرغنے اور سابق وزیر جنگ آویگدور لیبرمین نے کہا آج (بروز ہفتہ 10 مئی 2025ع کو) امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی میں نیتن یاہو کی پالیسیوں کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا: نیتن یاہو کی پالیسیوں کے بموجب، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات انتہائی نچلی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
لیبرمین نے صہیونی چینل i12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: نیتن یاہو ایک سال اور سات مہینوں کی جنگ کے بعد بھی نہیں جانتا کہ حماس کو کیسے شکست دے، یقینا وہ 17 برسوں میں بھی حماس کو شکست نہیں دے سکے گا۔
سابق صہیونی وزیر نے مزید کہا: مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات اس حد تک خراب ہوئے ہوں؛ امریکیوں نے ہمارے تحفظات کو توجہ اور ہمیں اطلاع دیئے بغیر یمنیوں کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کر دیئے اور ایران کے ساتھ مذاکرات میں بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لیبرمین نے انتہاپسند حریدی یہودیوں کی جبری فوجی ڈیوٹی ـ جو کہ فوج میں بھرتی کے خلاف ہیں ـ کے بارے میں کہا کہ انہیں بہرصورت فوج میں جانا پڑے گا، اور اگر انکار کریں تو انہیں حق رائے دہی، ڈرائیونگ لائنسنس، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں رہائش کا حق اور دوسرے بنیادی شہری جقوق سے محروم کیا جائے گا۔
دوسری طرف سے فلسطین پر قابض یہودی آبادکاروں کی دوسری جماعت "ڈیموکریٹس پارٹی" کے سرغنے یائیر گولان نے کہا کہ نیتن یاہو نے واشنگٹن کے ساتھ تل ابیب خاص روابط کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
گولان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں ان دنوں عالم نظامات اور علاقائی اتحادوں کے قیام کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں لیکن اسرائیل اس دائرے سے خارج ہے! اسرائیل اس اتحاد کے اندر اپنے حیاتی مفادات کو کھو رہا ہے لیکن نیتن یاہو کی کابینہ صرف سیاسی محرکات اور احمقانہ توہّمات کی بنا پر اسرائیلی فوج کو غزہ کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔
اس صہیونی سیاستدان نے کہا نیتن یاہو غزہ کی جنگ کے لئے کوئی حقیقی آپریشنل پلان اور کسی بھی کامیابی کے بغیر غزہ میں لڑ رہی ہے، اور اسرائیل عالمی سطح پر تنہا رہ گیا ہے اور دائیں بازو کے تشدد پسندوں کے آراء اور نظریات کو نافذ کر رہا ہے۔۔۔ اسرائیل آج تنہا ہوچکا ہے، غریب اور کئی حصوں اور دھڑوں میں بٹ چکا ہے، اور اندر سے شکست و ریخت اور زوال کا شکار ہے۔
اس کا کہنا تھا: ہم شکست خوردہ نیتن یاہو کی کابینہ کو گرا دیں کے اور بہادر اور جمہوری کمانڈروں اور راہنماؤں کے بر سر اقتدار لائیں گے۔ [شکست و ریخت اور زوال کا شکار ریاست اسرائیل کے اندر!!!]
واضح رہے کہ ٹرمپ نے یمن پر حملہ کرکے عجیب و غریب نعرے لگائے اور وعدے دیئے اور دعوے کئے لیکن ناکام رہا چنانچہ ڈیڑھ مہینے کی جنگ کے بعد اس یمنیوں کے ساتھ جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط کرنا پڑے! اور ٹرمپ نے اس سمجھوتے کا اعلان کیا تو صہیونی حکام نے کہا کہ انہیں اس بارے میں کوئی خبر نہيں دی گئی اور امریکہ نے اس بارے اس قسم کے کسی سمجھوتے میں اسرائیل کی رائے نہیں پوچھی!
ادھر یمنی حکام نے کہا کہ اس سمجھوتے کا مقصد یمن اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ حملے روکنا تھا، اس کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یمن اس وقت تک صہیونی ریاست پر اپنے حملے جاری رکھے گا جب تک کہ غزہ میں نسل کشی نہیں رکے گی، غزہ کا محاصرہ ختم نہيں ہوگا اور فلسطینیوں کو امداد کی ترسیل بحال نہیں ہوگی اور اس کے بعد یمنیوں نے اسرائیل کی فضائی ناکہ بندی کا اعلان کیا اور صہیونی ہوائی اڈوں پر کامیاب میزائل حملے کئے جو تا حال جاری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ